A 45-year-long study has shed light on how to nurture gifted children into becoming successful adults
یہ تھا سال 1968۔ امریکہ کی جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے شعبہ سائکومیٹرکس سے منسلک پروفیسر جولین سٹینلے ایک بارہ سالہ ذہین بچے سے ملے جو وہاں کمپیوٹر سائنس پڑھ رہا تھا۔
جوزگ بیٹس نامی وہ بچہ نہایت ذہین تھا لیکن ساتھ میں وہ کافی بور بھی تھا۔ وہ اپنی عمر کے دیگر بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے تھا۔
اس بچے سے متاثر ہو کر جولین سٹینلے نے ایک طویل مدتی تحقیق شروع کی جو کہ 45 برسوں پر محیط تھی اور اس کے تحت ذہین بچوں کی پرورش پر تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور معروف گلوکارہ لیڈی گاگا بھی شامل تھیں۔ .
اور جوزف بیٹس کا کیا ہوا؟ انھوں نے بھی اپنی زندگی میں کافی کامیابیاں حاصل کیں۔
انھوں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور پہلے ڈاکٹری مکمل کی، اس کے بعد یونیورسٹی میں بطور استاد کام کیا اور اب ‘مصنوعی ذہانت’ کے شعبہ میں چند معتبر ترین ناموں میں سے ایک ان کا نام ہے۔
جولین سٹینلے نے جان ہاپکنز یونی ورسٹی میں ایک پروگرام شروع کیا جس کا نام تھا ‘سٹڈی آف متیھیمیٹکلی پری کوشیئس یوتھ’ (ایس ایم پی وائی) یعنی ان بچوں پر تحقیق جو ریاضی میں بہت قابل ہوں۔اس تحقیق میں اُن پانچ ہزار ذہین و فطین بچوں پر تحقیق کی گئی جو ذہانت کے پیمانے میں ذہین ترین ایک فیصد بچوں میں شامل تھے۔
اس تحقیق کی مدد سے جولین سٹینلے کو چند حیران کن حقائق ملے۔ .
روایتی طور پر کہا جاتا ہے کہ ‘پریکٹس میکس پرفیکٹ’ یعنی مسلسل ثابت قدمی سے کوئی کام کرنے میں پختہ مہارت حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ کہ آپ کسی بھی چیز میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اس کے لیے سخت محنت کریں اور بھرپور توجہ دیں۔
اس تحقیق ایس ایم پی وائی کے مطابق بچپن میں مسائل حل کرنے اور درست فیصلے لینے کی صلاحیت اور آگاہی، مستقبل میں کامیابی کے لیے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ مسلسل محنت کرنے کے یا اُس فرد کے مالی اور سماجی حالات اس کامیابی میں اتنے اہم نہیں ہوتے۔
اس کے لیے اہم بات یہ ہے کہ بچوں پر پڑھائی میں اچھی کارکردگی کے لیے اتنا زور نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس کے دباؤ کی وجہ سے وہ نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے ذہین بچے کے مستقبل کو مزید سنواریں اور ان کی ذہانت کو بڑھائیں تو اس کے لیے کچھ مفید مشورے درج ذیل ہیں۔
اپنے بچے کو مختلف نوعیت کے تجربات سے گزرنے کے مواقع فراہم کریںذہین بچوں کو اکثر اوقات ترغیب دینے کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ زندگی کے مختلف تجربات سے گزرنے کے مواقع فراہم کرنے سے یہ ممکن ہو سکے گا کہ وہ اصل دنیا میں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا سامنابہتر طریقے سے کر سکیں۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ اسی طرز زندگی کو اپنائیں جس کی انھیں واقفیت ہوتی ہے اور وہ بالکل نہیں چاہتے کہ نت نئے تجربات سے گزریں۔ .
ان کے شوق اور صلاحیتوں کو اجاگر کریں
چاہے وہ کوئی کھیل ہو، کوئی موسیقی کا ساز یا فنون لطیفہ میں سے کوئی عمل، بچپن سے ہی بچوں کو کسی مشغلے میں دلچسپی رکھنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا مستقبل میں ان کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ان پر کوئی چیز زبردستی نہیں تھوپنی چاہیے۔
اپنے بچے کی ذہنی اور نفسیاتی ضروریات کو سمجھیں
کسی بھی چیز کو سیکھنے کے لیے تجسس کا ہونا سب سے ضروری ہوتا ہے۔ بچے سکول شروع ہونے سے پہلے بہت سے سوالات کرتے ہیں اور کئی بار یہ ممکن ہے کہ ان کو جواب دیتے دیتے آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے لیکن یہ اُن کی نشو نما کے لیے ضروری ہے۔ .
کوشش کو داد دیں، صلاحیت کو نہیں
بچوں کی نشونما کے لیے بہت ضروری ہے کہ کسی بھی چیز کے حصول کے لیے ان کی جانب سے کی گئی کوشش کی داد دینی چاہیے بجائے اصل نتیجے کے۔ بچوں کے سیکھنے کے عمل میں خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے رد عمل سے سیھکتے ہیں۔
ناکامی سے گھبرانا نہیں چاہیے
غلطیاں اور ناکامیاں مستقبل میں کامیابی کی کنجی ہیں اور سیکھنے کے لیے ضروری۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ غلطیوں کو موقع سمجھنا چاہیے تاکہ بچے ان سے سبق سیکھیں اور مستقبل میں بہتر کارکردگی دکھائیں۔
بچوں پر کوئی چٹ یا لیبل نہ لگائیں
بچوں پر لیبل لگانے سے ایسا ہو سکتا ہے کہ دوسرے بچے اس پر جملے کسیں اور مذاق اڑائیں۔
اساتذہ کے ساتھ مل کر بچے کی ضروریات کے بارے میں بات کریں
ذہین بچوں کو اکثر زیادہ مشکلات سے بھرپور سوالات چاہیے ہوتے ہیں تاکہ ان کے ذہنی نشو نما میں اضافہ ہو اور اس کے لیے ان کو زیادہ مدد کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے یہ اہم ہے کہ اساتذہ کے ساتھ اس بارے میں مشورہ کیا جائے۔
بچوں کی صلاحیتوں کی جانچ کرائیں
بچوں کی صلاحیتوں کو جانچنا ضروری ہے جس کی مدد سے یہ بات ابھر کر سامنے آسکتی ہے کہ آیا انھیں کسی قسم کی کوئی ذہنی یا کوئی اور بیماری تو نہیں ہے یا وہ نفسیاتی یا سماجی مسائل کا سامنا تو نہیں کر رہے۔
Source: https://www.bbc.com/urdu/science-45822400
Leave a Reply